Operation Batagram &Social Media Brigade
بٹہ گرام چیئرلفٹ والے دن میری کام سے چھٹی تھی ، اس لئے ٹی وی دیکھنے سے بھی رخصت لی ہوئی تھی ، سوشل میڈیاپر خبروں کے طوفان پر بھی بند باندھ رکھا تھا ۔ تاہم واقعے کی خبر ضرور تھی اور لبوں پر دعا بھی کہ بچے صحیح سلامت گھر لوٹ جائیں ۔ دوسرے روز صحافتی دکان کا شٹر جیسے ہی کھولا تو سوشل میڈیا پر ریسکیو مشن میں کامیابی سے زیادہ لعن طعن کا بازار گرم تھا ۔ مقامی افراد کی تعریف کی آڑ میں سیاسی نفرتوں سے لدی توپوں کا رخ فوج کی جانب گولا باری کرررہا تھا ۔ گالیوں ، جھوٹی بے بنیاد ، آدھی ادھوری ، سچی جھوٹی خبروں سے لیس سوشل میڈیا بریگیڈ بندوقیں اٹھائے منہ سے ہوائی فائر کرنے میں مگن تھی ۔ ایک سے بڑھ کر ایک ہیڈ لائن ۔ اداروں کی ناکامی کا رونا دھونا ، ماتم ، سینہ کوبی چل رہی تھی ۔ نت نئے ہیش ٹیگز پر درجنوں پوسٹ پڑھی لیکن کسی میں خبر نہ تھی ، فیکٹس نہ تھے ، تفصیل نہ تھی ، اگر کچھ تھا تو وہ تھا طوفان بدتمیزی ۔ میں نے دیگر کام کے ساتھ بٹہ گرام میں مقامی افراد سے رابطہ بھی بحال رکھا اور جن نقطوں پر تنقید کی جارہی تھی ان سے متعلق مقامی افراد سے سوالات کئے تاکہ اپنے تئیں جتنی حقیقیت ہے وہ سامنے رکھ سکوں ۔ کیوں کہ آدھا سچ پورے جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے ۔ پندرہ گھنٹے کے ریسکیو مشن کا خلاصہ یہ تھا کہ ، مقامی افراد کو فوری حادثے کا پتہ چلا ، تو انہوں نے تیاری کی لیکن ساتھ ہی فوج نے بیڑا اٹھایا اور مقامی افراد کو روک دیا ۔ تاکہ کوئی معمولی کوتاہی سے بڑا حادثہ نہ ہوجائے ۔ پہلے ہیلی کاپٹر سے ریسکیو کرنے کی کوشش کی ۔ مقامی افراد کے مطابق ، ایک ایک گھنٹے تک ہیلی کاپٹر ہوا میں رکا رہا جو کہ انتہائی خطرناک ہے لیکن بچے بے حد خوف زدہ تھے اور بیلٹ پہن کر لٹکنے کے لئے تیار نہ تھے ۔ ایک بچے نے جب ہمت کی اور چیئر لفٹ سے ہیلی کوپٹر کے بیلٹ کے ساتھ چھلانگ لگائی تو ڈولی کا توازن مزید بگڑ گیا ، جس پر اندر موجود بچے رونے لگے اور اس لمحے آرمی نے ہوائی ریسکیو معطل کیا ، لیکن اس تمام دوران ۔۔ فوج پلان بی پر کام کرتی رہی ، مانسہرہ سے زپ لائن ایکسپرٹس کو تیار کیا ، انہیں ہیلی کاپٹر سے بٹہ گرام پہنچایا ، اس سے قبل پہاڑ پر عارضی ہیلی پیڈ بنایا ، زپ لائن ایکسپرٹس کو ریسکیو کے لئے تمام ضروری سامان فراہم کیا ،اور ائیر فورس اور اس ایس جی کمانڈوز نے پورے مشن کو لیڈ کیا ۔ الیاس اور علی سواتی نے چھ افراد کو تین تین کرکے ریسکیو کیا ۔ اس سے قبل مقامی فرد صاحب بھی ایک بچے کی جان بچانے میں کامیاب ہوا ۔ صاحب سے پہلے بھی ایک مقامی بچوں کو ریسکیو کرنے گیا تاہم اسے آدھے راستے سے واپس لوٹنا پڑا اور فوج نے اسے بھی ریسکیو کیا ۔ تفصیلات کا خلاصہ کرنے کے لئے
علی سواتی اور الیاس کے انٹرویوز اور نمبرز موجود ہیں ۔ لیکن یہاں تو ہم عوام کسی کی رائے سننے کا حوصلہ نہیں رکھتے ایسے میں سچ جاننے کی گستاخی کیسے کی جاسکتی ہے ۔ اس میں عوام کا قصور بھی نہیں سوشل میڈیا کا بپھرا سمندر بھی کمال ہے ، کچرا تیرتا رہتا ہے اور بھاری پتھروں کو تہہ میں دفن کردیا ہے ، اب بھلا ٹائی ٹینک کے ملبے دیدار کے لئے ہر شخص تو ٹائٹن کا سفر کرکے اپنی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتا ، غلطی سے کوئی سچ سامنے رکھ بھی دے تو اسے ایسے ٹرول کیا جاتا ہے کہ الامان الحفیظ ۔ بیشتر اوقات سوشل بائیکاٹ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ایسے میں سچ تو چھوڑے بندہ لنگوٹی بچانے کے بھی قابل نہیں رہتا ۔ یہ تمام صورت حال
میمز میں پی ایچ ڈی کی سند اور تبصروں میں راکٹ لانچررکھنے والی ہماری قوم کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے ۔ پورا سچ نہیں معلوم تو ہم پر لازم ہے کہ اسے پھیلانے سے گریز کرے ۔۔ اور خاموشی اختیار کرے ۔
آپ کی پوسٹ اور شیئر سے نہ تمغہ امتیاز ملنا ہے ، نہ جنت میں پلاٹ کا وعدہ ہے ۔ لہذا پڑھیں ، جانیں ، سمجھیں ، اور صرف اپنی معلومات میں اضافہ کریں ، دوسروں کو تبلیغ کرنے اور اپنا تبصرہ ان پر تھوپنے سے گریز کریں ۔۔ آپ کا نسخہ عوام کی پہنچ سے دور رکھیں ۔