Ashara Mubaraka Reflection
رسول پاک صل اللہ علیہ والہ وسلم ایک روز چٹائی پر آرام فرما رہے تھے ۔ آپ نیند سے بیدار ہوئے ہاتھوں پر چٹائی کی چھاپ تھی ، اصحاب نے دیکھا تو عرض کی کہ یا رسول اللہ صل الله عليه وسلم آپ کے ہاتھ مبارک پر چٹائی کے نشان پڑ گئے ہم کوئی نرم گدا بچھا دیتے ہیں ۔۔ نئی پاک صل الله عليه وسلم نے فرمایا ، سخت گرمی کے دن میں تیز دھوپ میں چلتے چلتے تھک کر مسافر کسی سایہ دار درخت کو دیکھ کر ٹھہر جاتا ہے اور اس کے سائے میں چند ساعتوں کے لئے آرام کرتا ہے لیکن پھر اسے اپنی منزل کی جانب رخ کرنا پڑتا ہے ۔ دنیا کی مثال بھی ایسی ہی ہے ، دنیا کی سختیاں تیز دھوپ ، گرمی سے مشابہت رکھتی ہے ، سایہ دار درخت کی چھاؤں میں کچھ دیر تو مسافر آرام کرسکتا ہے لیکن دنیا کا سفر تمام کرکے منزل تک پہنچنا مقصود ہے ۔
ایک موقعہ پر آپ صل الله عليه وسلم نے دنیا کی مثال سمجھاتے ہوئے اشارے کی انگلی کو دریا میں ڈال کر تر کیا ، اور اصحاب سے پوچھا کہ اس انگلی پر دریا کا کتنا پانی آسکا ۔۔ اصحاب نے عرض کی یا رسول اللہ صل الله عليه وسلم انگلی پر تو دریا کے پانی کے چند قطرے ہی ٹھہر سکے ۔ آپ صل الله عليه وسلم نے فرمایا، دنیا کی مثال انگلی پر موجود پانی کے قطروں کی طرح ہے اور آخرت دریا ہے ۔ دائمی زندگی کے سامنے دنیا صرف پانی کے چند چھینٹوں کے سوا کچھ نہیں ۔
محرم الحرام کے دس روز کے دوران آحدیث ﷺکی تعلیمات سے استفادہ لینا نصیب ہوا ۔ بلخصوص وہ حدیث شریف جن میں مثال دے کر سمجھایا گیا ہو ۔ جس کے سبب مشکل سے مشکل بات سمجھنا سہل ہوگیا ۔ پہلی مجلس میں
شہد کی مکھی کی طرح زندگی گذارنے کی ذکر سنی ، جو خالص کھاتی ہے اور خالص ہی واپس کرتی ہے ۔ شہد کی مکھی سے سبق دیکھ کر انسان ایک بہتر معاشرے کی تشکیل میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے ۔ ایک مجلس میں ستاروں کی طرح راستہ دکھانے کی خصوصیت پر روشنی ڈالی گئی ۔ اہم بات یہ ہے کہ ستارے تو راستہ دکھاتے ہی ہیں لیکن ہر آنکھ ستاروں کی چال سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ، اگر کوئی ستاروں کی چال پر منزل تک پہنچنا چاہتا ہے تو اس کے لئے یہ ہنر سیکھنا ضروری ہے ۔ اسی طرح نمک کی مثال دے کر اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی کہ جس طرح نمک کھانے کو بہتر بناتا ہے اور کھانا محفوظ کرتا ہے اسی طرح ایک شخص نمک کی طرح معاشرے کی بہتر ی کے لئے کام کرکے اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگی کو بہتر بنانے میں کردار ادا کرسکتا ہے ۔
دنیا کی تہہ وبالائی میں زندگی کا کرینہ سکھانے والی ان آحدیث نے کئی مواقع پر دل کو اطمینان بخشا ۔ مشکل حالات میں ، جہاں دل کے لئے ضبط کرنا مشکل ہوا وہاں یہ خیال آیا کہ دنیا کے چند قطرے کہاں زیادہ دیر کے لئے رکنے والے ہیں ، یہ وقت بے انتہا عارضی ہے اور گذر جائے گا ۔ دنیا کی حقیرحقیقت نے جہاں کئی مشکل مراحل آسان بنا دیئے وہیں امثال کے ذریعے بیان کی گئیں آحدیث نے دل پر گہرا اثر ڈالا ۔دنیا کتنی ہی ترقی کرلے اورٹیکنالوجی جس بلندی پر بھی پہنچ جائے ،شریعت محمدی ہر دور میں رہنمائی کا کامل ذریعہ ہے ۔ یہ ایک ایسا پیپر ویٹ ہے ، جسے سینے پر رکھ دیا جائے ۔ تو دنیا کے بدلتے حالات اور طوفانوں کی صورت میں بھی دل کو ادھر ادھر بکھرنے اور بھٹکنے سے محفوظ کیا جاسکتا ہے ۔