گھر والوں کو ہماری پوجا کرنی چاہیے
پاکستان کے آج کل جو سیاسی حالات ہیں ، اس نے عوام کو پریشان اور چند لوگوں کو نفسیاتی بنا دیا ہے ۔ کرتا دھرتا تو کھیل تماشا انجوائے کررہے ہیں ، لیکن جس کا کچھ لینا دینا بھی نہیں وہ اس سرکس نما کھیل میں اس رضاکار کا کردار ادا کررہا ہے جسے بغیر کسی اضافی معاوضے شیر کی کچھار میں دھکیل دیا جاتا ہے اور تماشے میں مزید جان ڈالنے کے لئے ہانکا بھی جاتا ہے ۔ باقی تماشائی دل نہ چاہئے تو سرکس چھوڑ کر جا سکتے ہیں ، لیکن اس بے بس کے پاس یہ آپشن نہیں ۔ باقی کے ہاتھ میں تماشا کنٹرول کرنے کا نہ سہی لیکن دیکھنے اور نہ دیکھنے کا کنٹرول ضرور ہے ۔ لیکن جن چند نفسیاتیوں سے اظہار ہمدری کیا جارہا ہے ان کے پاس ایسا کوئی کنٹرول نہیں ۔ وہ صبح اٹھتے ہیں ، چپ چاپ کام پر روانہ ہوتے ہیں رنگ ماسٹر سے ہدایت لیتے ہیں ، ایک کے بعد دوسری پریس کانفرنس سنتے ہیں ، ایک ہی اسپکرپٹ بار بار سنتے ہیں ، دل پر ہاتھ رکھتے ہیں ، اور پاس موجود کھمبے پر سر مار کر طبیعت بھال کرتے ہیں ۔ کبھی اپنی حالت پر ہنسی آجائے تو منہ پر ہاتھ رکھ کر قے کرنے والی شکل بنا لیتے ہیں ، مقدس گائے کے بارے میں جو قصیدے پڑھے جاتے ہیں ایڈیٹوریل اور ویژول مواد دیکھ پر رنگ ماسٹر سے گذارش کرنے کی دل میں تمنا کرتے ہیں کہ بڑے بھیا پیسے بھلے نہ دینا لیکن کام ہم سے کروا لو اب مزید بھونڈا پروپیگینڈا نہیں جھیلا جاتا ۔ ہنسی آجاتی ہے اور اگر کبھی یہ ہنسی آن ائیر چلی گئی تو کسی کی سانسیں رک جائین گی اور سرکس ماتم میں بدل جائے گا ۔ رحم کیجئے ہم بھی زندہ ہیں ، خطا ہوگئی تو اس شعبے میں آ دھمکے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں جب دل چاہے پھینٹی لگا کر بندر نما شیروں کا نمائندہ بنا دیں اور ہم تالیاں بجا بجا کر ۔۔ شو ر مچا مچا کر ان بندروں کو شیر دکھانے کا تماشا لگاتے رہے ۔ ہمیں تو سرکس کے باہر بھی سکون نہیں ، گھر والوں سے بھی دل کا بوجھ ہلکا نہیں کرسکتے ، الٹا انکی شکایتیں بھی ہمارے گلے پڑتی ہیں ۔ اب انہیں کیا خبر کہ نہ ہم کھل کر ہنس سکتے ہیں نہ رو سکتے ہیں ، لیکن پھر بھی کتنے بہتر طریقے سے پنجرے کا باہر بھی انسان ہونے کا دم بھرتے ہیں ۔ اس طلسماتی صلاحیتوں پر ہمیں تمغہ شجاعت اور جرات نہ سہی ۔۔ کم از کم پوجا کا مستحق تو سمجھا جائے ۔ کبھی کبھی تو آئینے میں خود کو دیکھ کر ہمیں یہ کہنا پڑتا ہے ۔۔ یہ سب تم کیسے کر لیتے ہو ۔۔۔