چرس کی پُڑیا
نشہ زندگی کے لئے زہر ہے۔ یہ بات کون نہیں جانتا۔ حتیٰ کہ نشئی خود بھی اس لت کے نقصان سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے ۔ اس کے لئے نشے سے جان چھڑانا آسان نہیں ہوتا ، وہ ہوش کھو بیٹھنے کے باوجود کبھی یہ نہیں کوشش نہیں کرتا کہ اس کے پیارے اس دوزخ کا رخ کریں۔ لیکن جدید معاشرے کے ان ہوش مندوں کا کیا جو اپنے پیارے پیارے بچوں کو نشے کی جانب بڑھتا دیکھ رہے ہیں اور خاموش ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ اپنے ہاتھوں سے اپنی ہی اولاد کے ہاتھ میں چرس کی پڑیا تھما کر مطمئن ہیں ۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ يہ کيسے ممکن ہے تو جناب اس بات کي جانب بڑھنے سے پہلے يہ جان ليجئے کہ نشہ آور شے کے استعمال سے دماغ ایک ہارمون خارج کرتا ہے ، جسے ڈوپامین کہتے ہیں جو وقتی طور پر بھرپور خوشی کا احساس دلاتا ہے ۔ جیسے جیسے نشے کا ڈوز بڑھتا ہے ۔ ڈوپامین کا اخراج مزید تیز ہوجاتا ہے، جسم اس جھوٹی خوشی کے احساس کا عادی ہونے لگتا ہے ۔ حيران کن بات يہ ہے کہ نشہ آور شے کے استعمال سے جو ہارمون خارج ہوتا ہے وہی ہارمون( ڈوپامین ) ، اسمارٹ فون کے زائد استعمال سے پیدا ہوتا ہے ۔ جیسے جیسے اسمارٹ فون یا سوشل میڈیا کا استعمال بڑھتا ہے ویسے ویسے نشہ طاقت ور ہوتا جاتا ہے ۔ انجانے میں عادت اس قدر پختہ ہوجاتی ہے کہ ہر دس منٹ میں بے وجہ فون دیکھنا ضروری ٹھہرتا ہے ۔ اگر کوئی میسج یا ای میل نہ ہو تو دل بے چین ہوتا ہے ۔ اضطراب کی کیفیت ہوتی ہے اور ذہنی تناؤ میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔ ماہرین کی جانب سے معائنہ کرنے سے یہ ثابت ہوا کہ یہ اسمارٹ فون استعمال کرنے والے کا ذہن ، ایک نشئی کے ذہن کي طرح ہي کام کرتا ہے ۔ نشہ ملنے پر پرسکون اور نہ ملنے پر ڈپریشن کا شکار ۔
تحقيق حيران کن ہے اورزميني حقائق تشويش ناک ۔۔ کيوں کہ چرس ہیروئن اور دیگر نشے کی طرح نوجوان ہي اسمارٹ فون کے نشے سے زیادہ متاثر ہیں ۔ تاہم اس سے بھی زیادہ حطرناک بات یہ ہے کہ دو سے دس سال کے بچے بھی ڈیجیٹل نشہ کررہے ہیں ۔ کوئی اور نہیں بلکہ والدین بچوں کے ہاتھوں میں موبائل فون کی صورت میں چرس کي پڑیا تھماتے ہیں ۔ ایسے والدین کے پاس ایک سے زائد فوری وضاحتيں ہوتي ہيں ۔ جن میں سے چند بےحد عام ہیں ، مثال کے طور پر کیا کریں ہمارا بچہ ضد بہت کرتا ہے ، بچے آج کل بے حد اسمارٹ ہوگئے ، اسمارٹ فون ان کی ضرورت ہے ، اسکول کا کام بھی تو اسمارٹ فون پر ہی ہوتا ہے ، وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ یکن جناب جب نشہ چڑھتا ہے تو یہ تمام اپیلیں اور وضاحتیں بےکارہوجاتی ہیں۔
اعداد و شمارکے مطابق پاکستان میں بارہ کروڑ افراد اسمارٹ فون کے نشے کے خطرے سے دوچار ہیں ۔ جبکہ ملک میں ہرتین میں سے ایک شخص ذہنی دباؤ یا ڈپریشن کا شکار ہے ۔ روزانہ انیس افراد بے چینی اور اضطرب کے باعث زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں ۔ جبکہ سال میں ایک لاکھ افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں ۔ غربت ، بے روزگاری ، محبت میں ناکامی ، یا پھر کوئی اور سبب سنگين اقدام کي وجہ بنے لیکن اس فعل کی بنیاد ذہنی تناؤ ہي ہے جس میں اسمارٹ فون کا بڑھتا ہوا استعمال اپنا بھرپور کردار نبھا رہا ہے ۔
تحقيق اور حقائق اور نتائج اپني جگہ ۔ صورت حال اسي وقت بدلے گي جب جديد دور کے اسمارٹ نشےکو بيماري تسليم کرکے اس کے علاج کا ارادہ کيا جائے گا اور والدين چرس کي پڑيا بچوں کے ہاتھ سے چھيننے سے پہلے ، اسے اپنے ہاتھوں سے دور کرکے ، ہوش مندي کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈيجيٹل دنيا سے باہر قدم رکھيں گے