My Blogs

windup

دوہزار بيس ميں ريليز ہونے والي ايني ميٹڈ شارٹ فلم وائنڈ اپ کي کہاني ايک ايسے باپ کي ہے جو کومہ ميں زندگي موت کي جنگ لڑتي بيٹي کو واپس لانے کي کوشش کررہا ہے ۔ فلم کے آغاز ميں ايک ميوزيکل کھلونے کي آواز پر باپ کو ڈھونڈتي بيٹي کو عکس بند کيا گيا ہے ۔ سريلي آواز کے پيچھے دوڑتے بيٹي والد تک پہنچ جاتي ہے بس اسي اميد ميں غمزدہ باپ ايک بار پھر اس ميوزيکل کھلونے کا سہارا ليتا ہے اور بستر مرگ پر موجود بيٹي کے سراہنے اس کھلونے کو لئے دن رات اسي انتظار ميں رہتا ہے کہ اسکي آواز سے بيٹي ضرور لوٹ آئے گي ۔ کھلونے کي آوازپر کبھي بيٹي کے ہاتھوں ميں جنبش ہوتي ہے تو کبھي آنکھوں ميں ۔ دن گذرتے جاتے ہيں بيٹي آنکھيں نہيں کھولتي اور کھلونا ٹوٹ جاتا ہے اميديں دم توڑ ديتي ہے ليکن باپ کا حوصلہ نہيں ٹوٹتا اور وہي سيريلي آواز گنگناتا ہے ۔ زندگي کي جانب لوٹتي بچي اس آواز کے پيچھے پيچھے دوڑتے ہوئے بلاخر گہري نيند سے واپس لوٹ آتي ہے ۔ اس فلم کو ديکھتے ہوئے مجھے دوہزار گيارہ کي نومبر کے آخري دن ياد آئے جب والد کومہ ميں تھے اور ان کو زندگي کي جانب واپس لانے کے لئے جنگ لڑي جارہي تھي ۔ ڈاکٹرز نے برين ہمريج ڈکليئر کرتے ہوئے يہ واضح کرديا تھا کہ دماغ بري طرح متاثر ہے کتنے عرصے کومہ ميں رہتے ہيں يہ معلوم نہيں اور اگر سانسيں بحال ہوتي ہيں تو کسي کو پہچان سکيں گے اسکے امکانات روشن نہيں ۔ والد کي اس کيفيت سے متعلق ڈاکٹر کي گفتگو کا ميں نے گھر پر کسي سے تذکرہ نہيں کيا گھر والوں کو ٹيسٹ کے آسرے اميد دلائي ۔ گھر والوں کے لئے ٹيسٹ ہونے اور اسکے نتيجے تک کا دورانيہ اميدوں سے بھرپور ہوتا ۔ ليکن حقيقت سب پر آشکار نہ تھي کہ ٹيسٹ کا معاملہ تو صرف اسپتال کے معمول کي کارروائي ہے، سانسوں کي ڈور مصنوعي طور پر جاري رکھي گئي ہے ۔ چار روز اسپتال ميں چار سال جتنے بھاري گذرے ، ہر تھوڑي دير ميں جب والد کے کمرے ميں جاتي تو اس يقين سے گفتگو کرتي کہ وہ سن رہے ہيں ۔ کبھي پيار سے کبھي رو کر کبھي غصے سے ، ليکن جب جب ميں نے يہ جملہ کہا کہ ابا منا ملنے آيا ہے اس وقت ميں نے انکے ہاتھوں ميں جنبش محسوس کي ، انکھوں ميں جنبش ديکھي ۔ دوہزار گيارہ ميں انيس سال کا يہ منا گھر کا سب سے چھوٹا اور ميرے والد کا سب سے لاڈلا تھا اور آج بھي ہم سب کا پيارا ہے ۔ ابا سے ہي يہ کہاني سني تھي کہ ايک جن کي جان طوطے ميں ہوتي ہے جب بھي اسے مارنا ہو طوطے کي گردن مروڑي جاتي ۔ ميں نے اس کہاني کي حقيقت ديکھي ، ابا کي جان منا ميں ہي تھي ، اس کے قريب سے گذرنے والا کرب کا جھونکا ابا کے دل کي دھڑکيں روکنے کے لئے کافي تھا ۔ ابا کومے ميں تھے اور دل کي دھڑکن منا کے نام پر جواب بھي ديتي ليکن عمر تمام ہوچکي ۔ چار روز بعد جب ميں نے وينٹي ليٹر ہٹانے کا فيصلہ کيا تو دل کي کيفيت ايسي تھي کہ جيسے ہاتھوں سے اپنے پيارے کو منہ زور سمندر کي لہروں کے سپرد کرديا ہو اور ميں کنارے پر کھڑي ديکھ رہي تھي ۔ وائنڈ اپ اپني پياري بيٹي سے ايک بار پھر جڑ جانے کي ايک باپ کي کاوش تو دوسري جانب باپ کو الوداع کہتي بيٹي۔ دونوں ہي صورتيں زندگي اور موت کي کشمکش ہے اور جو جس مشترک ہے وہ ہے آخري دم تک اميد کو حوصلے سے برقرار رکھنے کي جدوجہد ۔ يقين سے جاري جہدوجہد کا جواب ضرور ملتا ہے بس صورتيں الگ الگ ہوتي ہيں ۔