نيلي شرٹ والا بچہ
سال نو کي پہلي صبح ميں اورمياں جي سڑک کنارے ڈھابے پہنچے،چند گداگر بچے جن کي عمريں دو سے سات سال ہوگي وہ اردگرد چکر کاٹنے لگے ۔ عرصے کے بعد حلوہ پوري کا ناشتہ کرنے کا موقعہ ملا کيوں کہ عموما اتوار کے روز بھي دفتر کي وجہ سے يہ عياشي مجھے ميسر نہيں آتي لہذا ميري پوري توجہ پوريوں پر رہيں اور مرتضيٰ اس دوران کرسي سے اٹھ کر چل ديئے جب واپس لوٹے تو ديکھا بچوں کو سامنے والے ٹيبل کر بٹھا رہے تھے اور ناشتے کي دعوت دے رہے تھے ، منظر ديکھ کر دل بہت خوش ہوا ، اسي دوران ميري نظر سامنے ايک اور بچے پر گئي جو چنے بيچ رہا تھا ، ہاتھوں ميں چنے کي بالٹي تھامے وہ اس فخر کے ساتھ ہر ٹيبل پر جاکر چنے خريدنے کا کہتا جيسے وہ قيمتي پتھروں کا سودہ گر ہو کوئي منہ کرتا تو بھي اسکے چہرے پر تاثر تبديل ہوتا نہ ہي ماتھے پر شکن پڑتي ، خود اعتمادي کے ساتھ مسکراتا ہوا ايک کامياب بزنس مين کي طرح آگے بڑھ جاتا ۔ ميں نے بچے کو بلايا اور ديگر بچوں کے ساتھ بيٹھ کر ناشتے کا کہا تو اس نے دعوت قبول کرتے ہوئے دوسرے ٹيبل کا انتخاب کيا ، دوسرے بچے اس نيلي شرٹ والے ساتھي کو جانتے تھے اس لئے ايک اور کرسي رکھ کر ساتھ کھانے کا کہا ليکن بچے نے ہاتھ کے اشارے سے معذرت کرلي ۔ ديگر بچے ہنستے کھيلتے حلوہ پوري پر ہاتھ صاف کرتے رہے ، اور نيلي شرٹ والا يہ ننھا بزنس مين دوسري ٹيبل پر اطمينان سے انتظار کرتا رہا ، وہ نہ ہم عمر ساتھيوں کے ساتھ کا طلبگار تھا نہ ہي اسے گرم ناشتہ جلدي ملنے کي کوئي بے چيني تھي ۔بچے کي خود اعتمادي ، خودداري قابل تعريف تھي ، اسے اپني محنت پر غرور تھا اور اسے اس غرور کو تہذيب کے دائرے ميں رہتے ہوئے مان رکھنے کي صلاحيت بھي آتي تھي ۔ بچے کي غرور بھري مسکراہٹ نے ايک بات تو سکھادي کہ پرتعيش اور پرسکون زندگي کا فرق ہميشہ نماياں ہي رہتا ہے ۔