My Blogs

اچھا برا ، حرام حلال

سچ اور جھوٹ سے بات اب حلال حرام تک جاپہنچي ہے ، سالوں کي محنت ، لگن ، ہمت جتن ، کوششيں کاميابياں ، ناکاميوں کي تھکن يہ سب اب دو حصوں ميں بٹ چکا ہے ، پيشہ پيشہ نہيں رہا اب فيصلہ اس بات پر ہو رہا ہے کون کس کے ساتھ ہے اور کيوں ساتھ ہے اور اگر کوئي ساتھ نہيں اور صرف اپنے کام سے کام رکھے تو وہ بھي قبول نہيں کيوں کہ اب اسکا کام دوسروں کے کام کاج کا جواب دينا بھي ہے ۔ وطن عزيز ميں فوج پر آغاز سے ہي کرپشن کا تمغہ سجا رہا ، مارشل لا سے خدا خدا کرکے نجات ملي ليکن اسٹيبلشمنٹ يعني فوج کا ہي اثر و رسوخ پس پردہ برقرار رہا ، کرپٹ سياست دان اپنے لئے اور ايک جتھے کے ايماندار سياست دان( بقول انکے ) دوسروں کے لئے اس بيساکھي کا سہارا لينے پر مجبور ہوئے ۔ اليکٹيبلز بھرتي کرنے سے نيپي بدلنے تک اور مخلوط حکومت کي حالت پر افسوس اور کرسي سے ہاتھ دھونے تک ان تمام مراحل کي اصل وجہ اور بيساکھي کي خرابي کا اعتراف ايماندار سياست دان بھي کرچکے ہيں ۔ ليکن جيسے وقت پر گدھے کو بھي باپ بنانا برا نہيں سمجھا جاتا اسي طرح سب کے بھلے کے لئے اگر ايماندار نے سرٹيفکيٹ يافتہ مير جعفر اور مير صادق کو باپ بنايا تو مصلحت ميں اس کي گنجائش بھي تھي اور خرابي کسي کو دکھائي بھي نہ دي ۔ وقتي طور پر ليا گيا سہارا ضروري تھا ليکن جب بچہ پيروں پر کھڑا ہوگيا اور ہوشيار تو وہ پہلے سے ہي بہت تھا تو نيپي بدلنے والوں کو اپني قربانياں ياد آگئيں ۔ خوب جتايا ہوگا اور سمجھايا بھي ہوگا ، ليکن جس بچے کو گود ليا تھا اس نے آئينہ دکھايا کہ بچوں کو پالنا والدين کا فرض ہے پھر احسان کس بات کا ، اي موشنل بليک ميل کي ضرورت نہيں ۔ بس وہيں سے سب خفا اور راستے جدا ۔ يہ لڑائياں تو ازل سے تھيں ليکن اس بار صحافي زيادہ نشانہ بنے ، پہلے فوج اور فوجي حکومت ، اور فوجي پيمرا کے رولز اور قومي مفاد وغيرہ کي بيڑياں تھيں تو سب اچھا تھا، ايماندار سياست دان نے جب بيساکھي اٹھائي تو بھي صحافيوں نے اسے مصلحت جاني اور فل پروف سيکيورٹي کي طرح فل پروف سپورٹ ديا گيا ، دوہزار اٹھارہ کے اليکشن ميں کوريج تک کرنے پر پابندي تھي ليکن اس وقت بھي سب اچھا تھا ۔ تھوڑا دائيں بائيں چوں چراں کرنے والوں کو خوب پھينٹياں بھي پڑي اس وقت بھي کوئي غل غبارہ نہيں تھا سب اچھا تھا ، معمولي تنقيد کرنے والوں کي تو خير جس نے نصيحت کرنے کي کوشش کي اس نے بھي خير منائي زيرو پرسنٹ عدم برداشت پر بھي سب اچھا ہي تھا اور پھر امپورٹڈ حکومت اسي بيساکھي کي مدد سے مسلط ہوئي يوں عمل بالمعرف ، حق و بالطل ، بيروني سازش ، غلامي ، اور غداري کي آوازيں گونجيں اور اچھے برے کا فرق مٹ گيا ۔ اس وقت وقت کے تقاضے پر جب کچھ نہ رپورٹ ہوا تو چل چلاؤ ليکن اب ايسا ممکن نہيں جو سچ ہے وہ دکھانا پڑے گا ، جو ہورہا ہے وہ بتانا پڑے گا ، چاہے اس کے پيچھے جتني ہي تہہ کيوں نہ ہو ، اس اينگل پر جانے کي ضرورت نہيں اس پر گلا شکوہ کرنے کا وقت نہيں ، وقت اب فيصلے کا ہے جو فيصلہ کيا جاچکا ہے ۔ اس فيصلے پر کئي تجزيہ کاروں نے بھي فيصلہ کيا ۔ جس طرح تاريخ غير جانبدار نہيں ہوسکتي اسي طرح تجزيہ کار بھي غير جانبدار نہيں رہ سکتے ايک سائيڈ تو انہيں بھي چنني تھي جہاں دل ٹھکا راہ کا انتخاب کيا اور بھلا کيا ۔ نيوز چينلز سے وابستہ ديگر حضرات بھي اپنا کام کر رہے ہيں ، وہي پراني بيڑياں جن کا ذکر اوپر کيا اسے پہنے ہوئے اپنا کام ، ليکن يہ کام اب اس لئے بھي آسان نہيں رہا کہ سوشل ميڈيا نے تو ہر شخص کو صحافي اور تجزيہ کار بنا ديا ہے ، آدھي ادھوري معلومات کي بنياد پر سوشل ميڈيا پر صحافت کرتے لاکھوں کروڑوں افراد اپني رائے کا اظہار کررہے رہے ہيں ، (بليک ويگو کا ڈر اپني جگہ ) ۔ بات کا مقصد صرف اتنا ہے کہ نوکري کرنے والے پہلے بھي نوکري ہي کررہے تھے اور آج بھي ، بس اب ان سے کئے جانے والے ذاتي خواہشات پر مبني تقاضوں کي فہرست طويل تر ہوگئي ہے ۔ اس تکميل کے لئے رزق حلال کمانے والے صحافيوں کے پاس بھي ديگر افراد کي طرح سوشل ميڈيا پر اظہار رائے کا حق موجود ہے جس کا وہ استعمال بھي خوب کرتے ہيں ۔ جس طرح يہ تاثر عام ہے کہ کہ ملٹي نينشنل کمپنياں ملکي معيشت کو نقصان پہنچاتي ہيں يا ملکي صورت حال سے نالاں نوجوانوں کا اچھے مواقعوں کے لئے ملک سے باہر جانا برين ڈرين ہے ، امپورٹڈ اشيا کا استعمال زيادہ ايکسپورٹ بھي قومي بل پر بھاري پڑتا ہے ان توجيہات کے باوجود ان افراد کو اچھے برے کي عينک سے نہيں ديکھا جاتا ۔ نہ ہي کوئي اور سوال يا شکوہ کيا جاتا ہے ۔ واٹس ايپ ڈسکشن ، ٹوئٹر پر سپورٹ اور فيس بک پر لائقس سے انکا فرض شايد ادا ہوجاتا ہوگا ، ليکن کچھ لوگوں سے ڈو مور کا مطالبہ جائز ہے ۔ پھر بات حلال اور حرام تک آجاتي ہے ۔
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگي