راولپنڈی کی ویمپائر ڈاکٹر
جس کي لاٹھي اس کي بھينس کا محاروہ آج کل جس کا موبائل اسکي بھينس بن چکا ہے ، اسمارٹ فون کي لاٹھي سے ہر شخص اپني مرضي سے جب چاہے جو چاہے جيسے چاہئے جسے چاہئے ہانک سکتا ہے اور اسے کوئي پوچھنے والا ہے نہ لگام ڈالنے والا ۔ حال ہي ميں خود ساختہ صحافي اور يوٹيوبرز نے صرف چند سبسکرائبر بڑھانے کے لئے ميڈيکل کي ايک لائق طالبہ کو ويمپائر بنا ديا ۔ راولپنڈي کے ہولي فيملي اسپتال ميں ہاؤس جئاب کرنے والي ڈاکٹر کيخلاف کسي تيماردار نے شکايت درج کرائي کے يہ مريضوں کے خون کے نمونے پيتي ہے ، اسپتال نے انکوائري کي اور کميٹي نے تحقيقات کي تو الزام سراسر جھوٹا ثابت ہوا يہاں تک کہ شياکت کرنے والي خاتون تو اس کے بعد غائب ہي ہوگئي۔ ليکن جيسے ہي الزام کي خبر اسپتال سے باہر نکلي تو مونيٹائزيشن کے جنون ميں مبتلا يوٹيوبرز نے خبر پر مصالحہ لگايا اور ڈاکٹر کو ويپمائر بنا ديا،چند کووڈ ورڈز لکھ پر سرچ کيا جائے تو قارئين اس سوشل ميڈيا اکاؤنٹس پر يہ خبر ديکھ کر تصديق بھي کرسکتے ہيں کہ کس طرح طالبہ کا کرئير تباہ کرديا گيا ہے ۔ ديگر سوشل ميڈيا صارفين بھي کہاں پيچھے رہتے اس خبر کو بغير سوچے سمجھے آگے بڑھايا اور ايسے پھيلايا جيسے يہ کار خير ہو اور ويمپائر سے کسي کي جان بچانے کا مشن بھي ۔ اس تمام تر صورت حال ميں ڈاکٹر يسريٰ کا نہ صرف کرئير برباد ہوا بلکہ انکي ذہني حالت پر جو اثر ہوا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔ متاثرہ لڑکي کے والد سے جب لکھاري يعني ميري گفتگو ہوئي تو انکا صرف ايک ہي شکوہ تھا کہ اب چاہے جتني بھي اس خبر کي ترديد کردي جائے ليکن ويمپائر کي جو چھاپ بيٹي پر لگي ہے اسے مٹايا نہيں جاسکتا ، ڈاکٹر يسريٰ نے انٹرويو ميں تحمل سے فقط اتنا ہي کہا کسي سے متعلق جھوٹي خبر کو انجانے ميں بھيلانے سے کسي کي زندگي پر کيا اثر پڑتا ہے صرف متاثرہ شخص ہي جانتا ہے يہ داغ عمر بھر کا ہے اور اب اسکے ساتھ ہي جينا ہے ۔ اس تمام تر واقعے کے بعد ذہن ميں صرف يہي بات ابھري کے قتل کرنے کو ہم سب ايک گھناؤنا فعل مانتے ہيں اور قاتل سے نفرت کرتے ہيں ، ليکن جيتے جاگتے انسان کو زندہ درگور کرنے پر ہم کبھي کيوں کوئي توجہ نہيں ديتے، اگر ايک جملہ کسي تو مشکل ميں حوصلہ دے سکتا ہے تو ايک تلخ جملہ کسي کي جان بھي لے سکتا ہے اور اب تو حالات کچھ ايسے ہيں کہ لوگ بولنے اور لکھنے سے پہلے صرف يہي سوچتے ہيں کہ لائکس اور ويووز کتنے مليں گے۔ چاہے اس کے لئے کسي کي لاش سے ہي کيوں نہ گذرنا پڑے ۔ جسے ہم معمولي سجھ رہے ہيں اسکي پکڑ بڑي سخت ہے ۔ جھوٹي خبر نشر کرنا اور پھيلانا اور انجانے ميں اسکا حصہ بننا معاشروں کي تباہي کا سبب ہے ۔ احتياط کريں ، خيال رکھيں کہيں آپ اپ لوڈ ، لائکس اور کمينٹس کے ايک کلک سے کسي کو قتل تو نہيں کررہے ۔