کوٹھے والا
حج کے ایام کے دوران دوست کے سجھانے پر ممتاز مفتی کی تحریر لبیک پڑھنے کا موقعہ ملا۔ سمے کے بندھن کے ساتھ ممتاز مفتی سے بندھن جڑا تھا۔ الکھ نگری یا علی پور کا ایلی جیسے شاہکار کے سامنے لبیک کے اوراق پلٹنے کا اتفاق نہ ہوا۔ لیکن ہر چیز کا ایک وقت متعین ہوتا ہے اور وہ وقت آ ہی گیا۔ کتاب کا موضوع سفر حج ہے اس لئے ذہن میں بسا عکس کچھ یوں تھا کہ تحریر کچھ روحانی جذباتی،عقیدت سے بھرپور، عشق خالق سے چکناچور ہی ہوگی لیکن آغاز سے ہی میرے جو قہقہے بندھنا شروع ہوئے وہ جگہ جگہ اونچے نیچے ہوتے رہے لیکن تھمے نہیں۔ لبیک کا آغاز سفر حج سے پہلے شروع ہونے والے بلاوے کے فلسفے سے ہوتا ہے۔ لاعلمی تمنا کا روپ لیتی ہے شوق اور تڑپ کے جذبے میں ڈھلتی ہے اور عشق کی یہ کیفیت حجاز مقدس پہنچ کر اپنی تکیمل کو پہنچتی ہے۔ لیبک میں بیان کئے گئے احساسات نے بیس سال پرانی یادیں تازہ کردیں۔ سترہ سال کی عمر میں حج کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس دور میں کم عمری میں حج کا رجحان زیادہ نہ تھا اسی لئے ایک خاتون سے یہ بھی سسنے ملا ارے تم کیا کرنے آئی ہو ابھی تو تم نے گناہ بھی نہیں کئے۔ میرا تصور بھی سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی سے کچھ زیادہ نہ تھا اسی لئے جب حج پر روانہ کرنے کے لئے اممی ابو کے ارادے سے بات سچ مچ روانگی تک آپہنچی تو میں بوکھلا گئی۔ دو بڑی وجوہات تھیں پہلی وجہ ہٹلر نما بڑی بہن کے ساتھ سفر اور دوسرا حج کی تو کبھی دعا ہی نہیں مانگی تھی پھر حج کیسے ادا کروں ۔ گویا میرے حساب کتاب کے مطابق صرف اسی کام کے اللہ اسباب بناتا ہے جس کی دعا مانگی گئی ہو۔ ان دونوں بڑی مناسب وجوہات کی بنا پر میں نے مسافر بیگ سے تمام سامان فرش پر پھینک دیا اور رونے لگی۔ اس غیر معمولی حرکت پر اممی حیران تھیں لیکن پریشان نہیں۔ ایک روز بعد پرواز بھر لی ۔ میرے دل کی طرح طیارے کی کیفیت بھی ممتاز مفتی کے بیان کردہ جملے سے مماثلت رکھتی تھی کہ (عازمین کا طیارہ جیسے کسی نے ہائی جیک کرلیا ہو ) ۔ سفرنامے لیبک کے اس دلچسپ جملے کو میں نے گزارا ہے ۔ ہمارا طیارہ بھی گویا ہائی جیک ہی ہوگیا تھا۔ سب نم آنکھیں لئے تسبیح میں مصروف تھے۔ میری حالت تو ایسی تھی جیسے اللہ میاں ایک سخت ٹیچر کے روپ میں برابر کی نشست پر براجمان ہوں اور ڈنڈا ہاتھ میں تھامے مجھے گھورے جارہے ہوں ۔ سخت ٹیچر کو عقیدت مندی دکھانے کے لئے میں بھی پھوٹ پھوٹ کر رو رو کر تلبیہ میں مصروف عمل رہی۔ کسی سے بات کرنا مجھے گورا نہیں تھا اور اگر کسی کو ہنستے مسکراتے دیکھتی تو فورا گستاخی کا لیبل لگا دیتی گویا طیارہ اللہ کہ گھر کے بجائے سیدھا اللہ کے پاس جارہا ہو۔ طیارہ جدہ لینڈ ہوا تو لوگوں کی کیفیت بھی بدلی لوگ سامان کی فکر میں مشغول ہوگئے اور ورد کے جملے کچھ یوں ادا ہونے لگے اے سامان میں حاضر ہوں ، اے سامان تم کہاں ہو میں حاضر ہوں۔ جدہ سے مکہ کا سفر میرے لئے مزید دلچسپ ہوگیا کیوں کہ بڑے بزرگ نما دوستوں کو کہتے سنا تھا کہ پہلی بار مسجد حرام کے مینار دیکھ کر جو دعا مانگی جاتی ہے وہ پوری ہوجاتی ہے۔ میں چونکہ ہمیشہ سے اللہ میاں سے ٹو دی پوئنٹ بات کرنے کی عادی رہی لہذا سولہ سال تک ہر سجدے میں جو دعا مانگی تھی بس وہی ایک دعا پر فوکس رہا۔۔ مکہ تک کے دو گھنٹے کے سفر کے دوران میں نے آنکھیں نہ کھولی، تھوڑی دیر کے لئے ڈر ڈر کے پلکیں اس لئے جھپکائیں کہ آپا سے پوچھ سکوں کہ مینار نظر آنے میں کتنی دیر ہے، آپا میرے فلسفے تک کہاں پہنچتی اس لئے ان کے کوسنے کے باوجود بھی میں نے اصل بات نہیں بتائی اور انکھوں کے ساتھ کان بھی بند ہی کردئے ۔ بلند و بالا عمارتوں میں مینار کہاں نظر آتے خیر مشکل سے مینار نما جو بھی چیز دکھائی دی اسے دیکھ کر جلدی جلدی دعا مانگی ۔ دعا قبول نہیں ہوئی تو میں نے بلند عمارتوں کو الزام ٹھہرا کر دل کو بہلایا کہ مینار صحیح سے نظر نہیں آئے اور میں نے انکھیں بھی تو پہلے کھولیں تھی اگلی منزل پر دعا قبول کروا لوں گی۔ بات صرف دعا کرنے تک محدود نہیں کون سی دعا کہاں پڑھنی ہے یہ بھی زندگی موت سے کم بڑا مسئلہ نہ تھا ، مقام ابراہیم کے قریب سے طواف دینے کے چکر میں دھکے کھانے اور دھکے دینے سے کسی طور گریز نہ کیا۔ حجر اسود کو بوسہ دینے کے لئے بھی مار دھاڑ کی، میری کیفیت اور حرکات کو ممتاز مفتی کی لبیک میں کچھ یوں پایا کہ (دعاؤں کی کتابوں کے درمیان کعبہ کو اداس پایا) ایسا ہی تو تھا کعبہ کے دیدار اللہ کے جاہ جلال کو محسوس کرنے کے بجائے دعاؤں کی کتابوں میں آنکھیں اور گردن دھنسی رہیں۔ کوئی دعا رہ نہ جائے اس لئے گروپ کے مولانا صاحب کا ایسا پیچھا پکڑا کہ ان کا مجھ سے جان چھڑانا وبال جان بن گیا، عمرہ ہو یا پھر اطراف کی زیارت میں نے مولانا صاحب کو ایک پل کے لئے بھی دور نہ جانے دیا تاکہ کتاب میں موجود کوئی دعا مجھ سے رہ نہ جائے۔ مسجد شجرہ میں مولانا صاحب کو تیز تیز قدموں سے کہیں جاتے دیکھا تو میں بھی چل دی، مولونا صاحب نے رفتار بڑھائی تو میں نے بھی بھاگنا شروع کردیا، وہ ایک عمارت میں جا گھسے میں بھی تیزی میں اندر گئی اور شرمندہ ہوگئی وہ ریسٹ روم تھا، الٹے پاؤں واپس آئی لیکن حوصلہ کم نہ ہوا ،ایک روز میں ریکارڈ بیس طواف کرڈالے، زم زم کے کنویں میں اترنا ممکن نہ تھا وہاں بھی جا پہنچی ، منی میں حج کے ایام میں جب بھگدڑ مچی لیکن میں بڑے شیطان کو کنکر مارنے کے لئے موجود تھیں ۔ یہ وہی مقام تھا جہاں ماموں اور بہن نے مجھ سے تمام ناطے توڑ دیئے تھے۔ اور الحمدوللہ اس وقت مجھے زیادہ فرق نہیں پڑا تھا کیوںکہ میرے لئے وہ تمام حضرات نالائق اور سست تھے ۔ مدینہ میں روضہ رسول کی زیارت نے طبیعت پر اگرچے گھرا اثر ڈالا اور ٹھہراؤ آیا ، لیکن ظاہری عبادت کا جنون برقرار تھا۔ ممتازمفتی کی لبیک پڑھنے سے احساس ہوا کہ ظاہری عبادت کو ترجیح دینا تو یونیورسل مسئلہ ہے، جس میں باطن کا حسن کھو جاتا ہے۔ اس وقت عمر اور علم دونوں ہی چیزیں کم تھیں لہذا حج سمیت تمام تر عبادتوں میں چھپا لطف سمجھ نہیں آسکا تھا جو آج محسوس کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات سمجھ آچکی ہے کعبہ والے کو جیسا گمان کرو گے ویسا ہی پاؤ گے ، اسے خوش کرنے کے لئے رونے دھونے کی ضرورت نہیں،آپ مسکراکر کعبے کی جانب ٹکٹی باندھے دیکھ کر بھی راحت حاصل کرسکتے ہیں۔بلخصوص اللہ تعالیٰ تو کعبہ سے زیادہ اپنی مخلوق کے دل میں بستا ہے اور عازمین تو اس رب کے مہمان ہیں اس لئے ان کے ساتھ حسن اخلاق اہم عبادتوں میں سے ایک ہے۔ سب سے اہم بات کہ لوگوں کو چکرا کر اور چکر دے کر کعبہ کے چکر کٹنے سے اعمال نامے نہیں بھرا کرتے۔