گھر وہی جہاں کوئی اپنا ہو ۔۔۔
گھر کا سوچ کر ذہن ميں ايک ايسي جگہ کا تصور ابھرتا ہے جہاں سکون ہو آرام اور اطمينان ہو ۔ ابا کو بچپن سے کہتے سنا کہ اپني جھونپڑي بھي دوسرے کے محل سے بہتر ہوتي ہے ۔ عمر بڑھنے کے ساتھ اس جملے کي سچائي کا باخوبي اندازہ ہوا ۔ گلي کوچوں ، تنگ تاريک گليوں ميں ہنستے بستے گھرانے ديکھے تو دوسري جانب کئي بڑے بڑے گھروندوں اور ديوقامت عمارتوں ميں بھي اداسياں اور ويرانياں ديکھيں ۔ کبھي ايک فرد کي کمي پورا مکان خالي کرديتي ہے اور کبھي کسي کي موجودگي کا احساس ويرانے ميں سکون کي ضمانت بنتا ہے ۔ ميرے والد صاحب طويل عرصے تک بستر مرگ پر رہے ، وہ بغير سہارے چلنے پھرنے سے بھي قاصر تھے ليکن انکي موجودگي گھر ميں رونق کا سبب تھي ۔ وصال کے بعد اس گھر ميں چند روز کے لئے پہلے کي نسبت زيادہ رش لگا ، رشتے داروں ، احباب ، تعزيت کے لئے آنے والوں کا ہجوم تھا اور گھر خالي تھا ۔ ويراني اور وحشت کا يہ عالم تھا کہ چند لمحے بھي گھر ميں بتانا آسان نہ تھا ۔ ايک شخص جو چل پھر تک نہيں سکتا تھا اسکے جانے سے رونق چلي گئي ، سکون کھو گيا ، اب وہ سکون کہيں اور تھا ۔ ابا کے ساتھ ميں بچپن ميں کئي بار قبرستان گئي ، ليکن ابا کے بعد قبرستان ميں دل لگا ۔ يہ احساس جو مجھے بارہ سال سے ہے اسے آج ايک بہت پياري دوست نے زبان دي ۔ والدہ کے انتقال کے بعد دوست کي سيالکوٹ سے کراچي واپسي ہوئي تو ميں نے اسے مزيد چند روز اسکے گھر ٹھہرنے کا کہا ۔ جواب سن کر دل اداس ہوگيا ۔ وہ بولي کہ اممي کے جانے پر گھر اب دشت سے بھي زيادہ وحشت زدہ اور ويران ہے ۔ گھر کي گلي سے گذرتے ہوئے دل ڈوبنے لگتا ہے اور تنگي کا احساس ہوتا ہے ۔ اممي سپردخاک ہے اور اب قبرستان گھر جيسا لگتا ہے ۔ اممي کے انتقال سے پہلے کبھي قبرستان نہيں گئي ، بھائي کے وصال کے بعد بھي اسکي قبر کا رخ نہيں کيا ليکن اممي کے بعد قبرستان ميں قدم رکھا تو ايسا لگا جيسے ميں اپنے گھر آئي ہوں ۔ يہاں اممي ہے اور وہي سکون ہے جو گھر ميں ہوتا ہے ۔ اسکا يہ جملہ مجھے ايک ہي لمحے ميں بارہ سال پيچھے لے گيا ، جب بھي ابا خواب ميں آئے ، يا کبھي دل اداس ہوا تو ميں قبرستان گئي ۔ بالکل اسي طرح جس طرح انکي حياتي ميں ان کے پاس جاتي تھي ۔ ادھوري ملاقات کي تشنگي اپني جگہ ليکن سکون وہي ملا جو انکي قربت سے تھا ۔ کيوں در حقيقت گھر تو وہي ہے جہاں کوئي اپنا ہو ۔