ڈول ہاؤس
دوستوں کی محفل تھی ، ہر سمت گہما گہمی تھی ۔ طویل عرصے کے بعد پرانی سہلیوں سے ملاقات ہوئی تو باتوں کا دور چل پڑا۔ ایسے میں دروازے پر دستک ہوئی اور میزبان کی بیٹی گھر میں داخل ہوئی ۔ ایک سال کی تھی جب دیکھا تھا ، اب وہ آٹھ سال کی ہوگئی تھی ۔ آیا نے کپڑے تبدیل کروائے ، جس کے بعد بچی ڈرائننگ روم کے ایک جانب ٹیبلیٹ ہاتھ میں لئے بیٹھ گئی ۔ حسب عادت میں نے بچی کو سمجھا بجھا کر ٹیبلیٹ لیا اور سائیڈ پررکھ کر اس سے اسکول سے متعلق باتیں کیں ۔ بچی پہلے تو خفا ہوئی پھر ٹیچرز سے لے کر بیسٹ فرینڈ کی کہانیاں سنادیں۔ڈرائنگ سے کس قدر لگاؤ تھا، یہ اسکی آرٹ بک دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا تھا ۔ باتوں باتوں میں بچی نے اپنے کمرے میں آنے کی دعوت دی ، تاکہ کھلونوں کا نظارہ کیا جاسکے ۔ مختلف اقسام کی گڑیاں سلیقے سے شیلفز پر سجی ہوئی تھیں ، ایک جانب باسکٹ میں کئی کھلونے تھےجبکہ الماری پرڈول ہاؤس تھا ۔ ایک فٹ لمبا اور دو فٹ طویل ڈول ہاؤس میں ایک کمرہ ، چبوترہ اور پلے ایریا تھاجس میں بمشکل ایک ننھی سی باربی سما سکتی تھی ۔ یہ کسی شوپیس جیسا تھابھلا ڈول ہاؤس سے کھیلنے میں بچوں کو کیا مزہ آتا ہوگا، یہ بچوں کو کیا سکھاتا ہوگا ؟ بچپن سے پر کشش لگنے والے ڈول ہاؤس سے جڑے اس سوال کا جواب مجھے اس دن آٹھ سالہ بچی نے بڑی خوبی سے سمجھایا ۔ اس نے ایک گڑیا میرے ہاتھ میں تھمائی اور دوسری اسکے پاس تھی ۔ مجھے مہمان بنا کر خود ڈول ہاؤس کی مالکن بنی ، میں نے دروازے پر دستک دی ، گڑیا نے میرا استقبال کیا ، مجھے لان میں لے کر گئی وہاں ہم نے کھلی فضا میں خوش گپیاں لگائیں ، پھر گاڑی میں بٹھا کر کیمپنگ پر لے کر گئی ، جہاں دونوں گڑیاؤں نے آسمان پر جھلملاتے فرضی تاروں پر گفتگو کی ۔میزبان گڑیا نے بادلوں کا دلچسپ نقشہ کھینچا۔ اس دوران میزبان گڑیا کی امی کا فون آجاتا ہے، گڑیا امی سے بات کرکے اپنی دوست کے ساتھ اچانک باہر جانے کے پلان پر معذرت کرتی ہے ، پکنک جاری رہتی ہے کہ اچانک جنگل میں شیر آجاتا ہے ، دونوں گڑیا گاڑی میں سوار ہوجاتی ہیں ، آٹو میٹک گاڑی فراٹے بھرتی ہے اور گڑیا صحیح سلامت ڈول ہاؤس واپس پہنچ جاتی ہے۔ایسے میں میزبان گڑیا کو یاد آتا ہے کہ وہ چابی تو جنگل میں بھول آئی ۔ وہ واپس جنگل کا رخ کرتی ہےاورشیر کورام کرنے کا طریقہ بھی اسے معلوم ہے۔رقص کرکے شیر کا دھیان بٹایا اور جھٹ سے چابی اٹھا کر گھر کی راہ لی ۔ گھرپہنچ کر دونوں گڑیا نے شکر ادا کیا۔صبح ہوئی تو مہمان کوالوداع کیااوریوں ڈول ہاؤس میں ایک رات قیام کا قصہ تمام ہوا ۔ ساتھ ہی ساتھ آٹھ سالہ بچی میں چھپا ایک اسکرپٹ رائٹر اور ڈول ہاؤس کی افادیت بھی سامنے آئی ۔ وقت کی کمی نہ ہوتی تو کھیل جاری رہتا اور ڈول ہاؤس کے فلور پر بچی کئی پلے پرفارم کرچکی ہوتی ۔ کمال کی کہانی ، بہترین ، اسکرپٹ اور پرفیکٹ ڈائیلاگز، بچی کا فن دیکھ کر میری حیرانی کا ٹھکانہ نہ رہا۔سہیلی کو تمام قصہ سنایا توحیرانی تشویش میں بدل گئی۔خاتون کو اپنی بیٹی کی اس صلاحیت کا علم ہی نہ تھا۔اس سے قبل میں جذبات کا اظہار کرتی ، بچی بول پڑی کہ امی آپ میرے ساتھ کبھی کھیلتی ہی نہیں ۔ ٹیبلیٹ اور موبائل پر ہی کام کرتی رہتی ہیں۔بچی تو یہ کہہ کر کھیل میں مصروف ہوگئی لیکن ہمارے لئے لمحہ فکریہ تھا۔
ٹیکنالوجی کے اس دور میں کھلونے تبدیل ہوچکے ہیں ۔ بچے ڈول ہاؤس سے نہیں موبائل سے کھیلنا پسند کرتے ہیں ۔ بچے بےحدضدی ہوگئےہیں،کیا کریں بات مانتے ہی نہیں ۔ یہ وہ جملے ہیں جس کے استعمال سے اکثر والدین مظلوم بن کر جان چھڑا لیتے ہیں ۔ لیکن اس صورت حال کے ذمہ دار کیا واقعی بچے ہیں ؟ کیا بچوں کو موبائل ، ٹیبلیٹس اور لیپ ٹاپس ، روایتی کھلونوں سے زیادہ پسند ہیں ؟ یا تیز رفتار دورمیں یہ گیجٹس بچوں کی ضرورت ہیں؟ان تمام سوالات کےجوابات اس بات سے پردہ اٹھانے کے لئے ضروری ہےجس نے ڈول ہاؤس سمیت دیگر کھلونوں کی اہمیت چھپا رکھی ہے۔جس پردے کے پیچھے چھپ کر والدین بچوں کو اپنے قیمتی وقت سے وقت دینا ، وقت کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے ۔ الماری پر دھول مٹی میں اٹا ڈول ہاؤس بھی اس وقت آباد ہوا ، جب میزبان گڑیا کے گھر مہمان نے دستک دی ۔ اگر گھر کے فرد بچوں کے خوابوں کے گھروں پر دستک دینا شروع کردیں گے توڈیجیٹل دنیا کی فرضی زندگی اور کرداروں کی اہمیت ختم ہوجائے گی اور ہماری نئی نسل ، ہمارا مستقبل ، جیتے جاگتے انسانوں سے میل جول رکھنے کے طور طریقے سیکھ پائے گا ۔
ڈول ہاؤس انتظار کررہا ہے ، ضرورت ہے تو اس بات کی کہ والدین چند لمحوں کے لئے ہی صحیح ، لیکن ٹیکنالوجی کی دنیا سے باہر آکر، ذہنوں کے بند دریچوں پر دستک دے اور ننھے معماروں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی بنیاد ڈالے ، تاکہ ڈول ہاؤس آباد ہوسکے