ڈسلیکسیا
کراچي ميں جون کي گرم شام اس وقت ٹھنڈي ہوا کا جھونکا معلوم ہوئي جب ايک طالبہ نے دلچسپ قصہ سنايا ۔۔ حال ہي ميں بي ايڈ کي ڈگري لينے والي طالبہ انگريزي ادب کي شوقين ہے اور مصنفہ کے طور پر کرئير اپنانے کي خواہش مند ۔ انگريزي ادب اور ايجوکيشن ميں ڈگري لينا بظاہر کوئي غير معمولي بات نہيں ليکن فاطمہ کے لئے يہ ايک معجزہ ہے ۔ فاطمہ ڈسليکسيا سے متاثر ہے ۔ ان کے لئے پڑھنا اور الفاظ کو پہچانا اتنا ہي دشواراہے جتنا اہرام مصر کے پتھروں ميں کندہ تحريروں کو ايک عام شخص کے لئے ڈي کوڈ کرنا ۔۔
(Dyslexia)
کوئی ذہنی بیماری یا معذوری نہیں بلکہ اس کے شکار افراد کو الفاظ پڑھنے ، پہچاننے، سمجھنے، یاد رکھنے اور لکھنے میں دشواری ہوتي ہے ۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو دنیا کی پانچ سے دس فیصد آبادی کو متاثر کرتا ہے ۔عموما اسکي تشخيص نہيں ہوپاتي کيوں کہ استاد اور والدين دونوں ہي بچوں کو پڑھائي کا چور کہہ کر جان چھڑا ليتے ہيں ۔ بچے کا کوئي قصور ہي نہيں ہوتا اسے جو دکھائي ديتا ہے وہ پڑھتا ہے اور لکھتا ہے، اسکا انداز عام فہم نہيں ہوتا اس لئے لوگ اسے سمجھ نہيں پاتے ۔۔ مثال کے طور پر بچہ ب اور پ کے درميان يا پھر بي اور ڈي ، ايس اور فائيو ، ٹي اور آئي کے درميان فرق ہي نہ کرپائے تو وہ کيسے پڑھے گا يا لکھے گا ۔۔ اس کيفيت پر قابو پانا ممکن ہے ليکن بدقسمتي سے والدين کي لاعلمي اور استادوں کي پہلو جھاڑنے کي عادت اسکي بروقت تشخيص ميں رکاوٹ بن جاتي ہے ۔ فاطمہ کي زندگي بدلنے ميں اسکے استاد نے جو مثبت کردار ادا کيا اسے جان کر ميں نے کچھ دنوں تک تو منفي رويوں پر تنقيد کرنے کا پروگرام کينسل کرديا ہے ۔ اب بھي دنيا ميں ايسے لوگ موجود ہيں جن کي خوش اسلوبي کي بدولت کار زندگي بخوبي چل رہے ہيں ۔ فاطمہ کے والدين نے جب پاکستان سے امريکا ہجرت کي تو بچي کي عمر دس سال تھي ۔ ٹوٹي پھوٹي انگريزي جانتي تھي اور الميہ يہ کہ ان دس سالوں ميں يہ بھي تشخيص نہيں ہو پائي تھي کہ فاطمہ ڈسليکسيا کي شکار ہيں ۔ امريکي اسکول ميں تمام مضامين انگريزي ميں تھے، فاطمہ جب پڑھتي يا لکھتي تو استاد کے لئے تحرير سمجھنا ممکن نہيں تھا ۔ گريڈ ون کي انگريزي کي ٹيچر نے مسئلہ بھانپ ليا ۔۔ جو کہ قابل ذکر ہے کہ استاد نے بچي کو نکمي اور پڑھائي چور کہہ کر والدين کو طلب کرنے اور خامياں گنوانے کے بجائے اپنا کردار بخوبي نبھانے پر توجہ دي ۔ جن حروف کو پہنچانے ميں فاطمہ کو پريشاني ہوتي تھي رنگوں کي مدد سے انکي شناخت کرائي گئي ۔ ٹيچر کے صبر تعاون اور حوصلہ افزائي نے وہ کمال کيا کہ دس سال تک کام چلاؤ پڑھنے اور سيکھنے کا عمل پٹري پر آگيا
فاطمہ کے مطابق ديگر بچوں کا مضمون چيک کرنے ميں ٹيچر کو دس منٹ لگتے تھے جبکہ انکا مضمون پڑھنے اور سمجھنے ميں استاد کو کم از کم بھي ايک گھنٹہ لگتا ۔ ليکن ٹيچر نے ہار نہ ماني وہ ديگر بچوں کے ساتھ فاطمہ پر محنت کرتي رہي ۔ کلاس آگے بڑھي ، ريڈنگ کرنا اب بھي فاطمہ کے لئے کوہ پيمائي جتنا ہي دشوار تھا ۔ ايسے ميں گريڈ تھري کي ٹيچر نے ہيري پورٹر پڑھنے کے لئے دي ۔ فاطمہ کے مطابق بڑي مشکل سے کئي دنوں ميں ايک نصاب مکمل ہوا اور کتاب واپس کردي ۔۔ چند روز بعد فاطمہ نے پھر وہي کتاب پڑھنے کے لئے طلب کي تو ٹيچر کي مسکراہٹ ميں اس قدر اعتماد تھا کہ جيسے وہ کہہ رہي ہو کہ فاطمہ مجھے يقين ہے کہ تم يہ کتاب مکمل پڑھ کر ہي واپس کرو گي ۔۔ اور ايسا ہي ہوا ۔۔ فاطمہ نے سال ميں وہ ايک کتاب مکمل کي اور پھر کتاب دوستي کا ايسا رشتہ جڑا کہ ڈسليکسيا جيسي کمي کي زندگي ميں کوئي جگہ نہ رہي ۔ ڈسليکسيا کے باوجود کتاب دوستي کسي معجزے سے کم نہيں ۔
فاطمہ اب صرف ايک بہترين ريڈر ہي نہيں مصنفہ بھي ہيں ۔ مختصر کہانياں لکھتي ہيں اور جلد اسے ايک کتاب کي شکل دينے کي کوششوں ميں مصروف ہيں ۔ فاطمہ کي باتوں سے جو اہم پہلو سامنے آئے وہ يہي ہيں کہ ڈسليکسيا ، آٹزم سميت ديگر اسپيشل نيڈز رکھنے والے بچوں کے لئے عليحدہ تعليمي ادارے اور دھوم دھڑکے، لشکارے مارتے ، غل غبارے کرتے طريقوں کي ضرورت نہيں بس ايک پيشے سے محبت کرنے والا استاد چاہئے ۔ جو کمي کو خوبي ميں بدلنے کا ہنر جانتا ہو ۔ جو يہ سجھتا ہو کہ ہر بچہ خاص ہے اور کئي خصوصيات سے سرشار ہے ۔ جس کي لگن ہمت بڑھائے اور جس کي مسکراہٹ ميں اعتماد ہو ۔۔ جس کي دورانديشي اس بات پر يقين پختہ کردے کے اگر کسي کو ب کي جگہ پ نظر آتا ہے تو يہ ديکھنے کا مختلف انداز ہے کوئي برائي نہيں ۔
اور کاميابي کي راہ ميں رکاوٹ نہيں ۔۔
فاطمہ کي زندگي ميں آنے والے استادوں کے روپ ميں ان شفيق کرداروں نے اس بات پر مہر ثبت کردي کہ حقيقي استاد کي تھوڑي سي توجہ طالب علم کي پوري زندگي بدل سکتي ہے ۔۔