لوگ کیا کہیں گے
لوگ کیا کہیں گے ۔۔
سردی گرمی کا مکس سیزن تھا ، کانفرنس میں شرکت کے لئے دیسی ساتھیوں کے ساتھ پردیس کا سفر تھا ۔ ایونٹ کے لنچ میں تو حلال کھانے کا اہتمام تھا ، لیکن جب گروپ گھومنے کے لئے روانہ ہوا تو ڈنر میں مچھلی کا انتخاب سب کے لئے قابل قبول ٹھہرا سوائے مجھ جیسے بدذوق کے ۔ مختلف اقسام کی مچھلیوں کے پلیٹر کے ساتھ ایک سبزی کی چھوٹی سی ڈش بھی پیش کی گئی ۔ اور اس کے ساتھ سوالات مشورے اور تبصرے مفت میں ملے ۔۔ مچھلی تو حلال ہے پھر کیا مسئلہ ہے ؟ کیا کوئی الجری ہے ؟ انسان اس مقام پر آئے اور مچھلی نہ کھائے بہت عجب ہے ۔۔ ! کسی کو مچھلی پسند نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے ! وغیرہ ۔۔۔ مچھلی نہ کھانے کی اصل وجہ بتا کر ایک محاذ کھولنے کی ہمت نہ تھی لہذا خاموشی ،مسکراہٹ اور پھیکی بے ذائقہ سبزی نگلنے میں ہی عافیت جانی ۔ تھوڑی ہی دیر میں نیا موضوع ملا اور یوں مچھلی نامہ ختم ہوا لیکن ( دوسروں کی زندگی میں کیا اور کیوں چل رہا ہے ) میں پی ایچ ڈی کرنے کی پاکستانیوں کی حسرت کہاں ختم ہوتی ۔۔ ساتھ بڑھتا رہا اور پوچھ گچھ کا سلسلہ بڑھتا رہا ۔۔ ظہرین پڑھتی ہو ؟ روزہ نماز ہماری طرح ہی ہے ؟ شادی کو کتنے سال ہوئے بچے کیوں نہیں ؟ شوہر کے لئے کچھ شاپنگ نہیں کی ؟ ۔۔۔۔ فہرست طویل ہوسکتی ہے لیکن کالیٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ، دل نہ دکھے تو پیسے واپس ۔ یہ خاصیت صرف ہم وطنوں کی ہی ہے ، انگریز اتنی رسرچ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہی نہیں ۔ اسکا اندازہ اس وقت ہوا جب گوروں کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا ۔ اس قدر بے مروت ، لاعلم ، جہاہل کہ کسی کی زندگی میں کیا چل رہا ہے اس کی جرنل نالج ہی نہیں رکھتے ۔ ایک میز پر بیٹھے ہوں ، سب وائن پی رہے ہوں ، آپ جوس آرڈر کریں اور وہ پھر بھی نہ دریافت کریں ، آپ کلب جانے سے انکار کریں ، گوشت چھوڑ کر سبزی کا انتخاب کریں ، روزہ رکھیں ، نماز پڑھنے چلے جائیں ، کوئی دعوت پر آئے نا آئے وہ صرف آپ کی خیریت دریافت کریں تو صدمہ تو ہوگا ۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ انہیں سانس کیسے آتی ہو گی ۔ یہاں تو ( اللہ اللہ لوگ کیا کہیں گے ) یہ سوچ کر فیصلے ہوتے ہیں اور خوبصورتی کا عالم یہ کہ لوگ پھر بھی کہتے ہی ہیں ۔ متوسط طبقے میں تو کہنے والے لوگوں کی ورائٹی بھی کمال ہے ، سب سے زیادہ کریٹی ویٹی شادی سیزن میں دکھتی ہے ۔ بھائی کی شادی کی ایک تقریب میں اگر آپ نے پرانا جوڑا پہن لیا تو استقبال کرنے سے اللہ حافظ کہنے تک آپ کو تھیسز کا سوال نامہ دیا جاتا ہے ۔ اور یہ فریضہ آپ کے رشتے دار باخوبی انجام دیتے ہیں ۔ دلوں کا حال تو اللہ جانتا ہے ، لیکن اللہ نے آنکھیں تو دیں ہیں طنزیہ مسکراہٹوں سے کچھ کچھ دل کا حال آپ بھی جان ہی لیتے ہیں ۔
کہتے ہیں زیادہ جاننا بھی نقصان دہ ہوتا ہے ،زیادہ علم رکھنے والے کا حساب بھی زیادہ ہوتا ہے ۔۔ ایسے میں لوگوں کی زندگیوں پر پی ایچ ڈی کرنے والوں کا تو اللہ ہی حافظ ، اتنی معلومات جو رکھتے ہیں ، حساب کتاب بھی لمبا ہوگا ۔۔
یہی نہیں اکثر و بیشتر پی ایچ ڈی کرنے کی یہ عادت خاص زندگی اجیرن کردیتی ہے ۔ اتنی اہم ریسرچ کرتے ہوئے ، اپنی زندگی کو اہم بنانے کی ریسرچ چھوٹ جاتی ہے ۔
اور پھر شعربےموضوع ہو کر بھی برمحل ثابت ہوتا ہے
اب اکیلے گھومتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اسطرح کے کاموں میں