غالب:پانچ میں سے ایک بہترین شعر
غالب کے پانچ بہترين اشعار ميں سے ايک
استاد نے آج ميري فرمائش پر غالب کي غزل کا انتخاب کيا، غزل کا پہلا شعر درج ذيل ہے
قفس میں ہوں گر اچّھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو
مرا ہونا برا کیا ہے نوا سنجانِ گلشن کو
اس شعر کي تشريح انتہائي خوبصورت ہے ليکن ميري اس تحرير کا مقصد نہيں، اصل مقصد غالب کے ان پانچ بہترين شعروں ميں سے ايک کا ذکر کرنا ہے جو کہ کچھ اس طرح ہے
وفاداری بہ شرطِ استواری اصلِ ایماں ہے
مَرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
بقول استاد کے اس شعر نے انکي زندگي بدل دي ۔ لفظي معنوں کے حساب سے يہ شعر سليس ہے، وفاداري کے ساتھ کمٹمنٹ يا عزم ارادہ ہي اصل ميں ايمان ہے، کوئي چاہے جنتا ہي مسلمان ، مومن ہونے کا دعويٰ کرے ليکن استواري نہيں وفاداري نہيں عزم نہيں کمٹمنٹ نہيں تو پھر رياکاري دھوکے بازي ہي ہے۔ ارادہ ہو تو پختہ ہو ، بھروسہ ہو تو کامل ہو، يقين ہو تو بلا شک ہو ۔ يہاں غالب کا زور اس بات پر ہے کہ پورا کفر آدھے ادھورے ايمان سے بہتر ہے ، اگر برہمن اپنے کفر ميں کامل ہے تو اسے بھي کعبہ ميں دفن کيا جانا چاہئے ۔ يہ مصرہ عزم کي اہميت پر مہر ثبت کرتا ہے کہ بغير وفاداري اور استواري قبل سوال عطا ہونے والي ايمان کي نعمت کي وہ لذت نہيں ۔۔
خليل جبران کي نظم ۔۔
don’t love half lovers
بھي اسي فلسفہ محبت کي ايک شاخ ہے۔
آدھے ادھورے احساسات ، زندگي کو پوري طرح جينے کا لطف دے ہي نہيں سکتے
اسي لئے تو داغ دہلوي کو يہ کہنا پڑا
نہ مزہ ہے دشمنی میں، نہ ہے لطف دوستی میں
کوئی غیر غیر ہوتا، کوئی یار یار ہوتا