طالب سے فراز تک
یوں بھی ترا احسان ہے آنے کے لیے آ
اے دوست کسی روز نہ جانے کے لیے آ
ہر چند نہیں شوق کو یارائے تماشا
خود کو نہ سہی مجھ کو دکھانے کے لیے آ
یہ عمر، یہ برسات، یہ بھیگی ہوئی راتیں
ان راتوں کو افسانہ بنانے کے لیے آ
جیسے تجھے آتے ہیں نہ آنے کے بہانے
ایسے ہی بہانے سے نہ جانے کے لیے آ
مانا کہ محبت کا چھپانا ہے محبت
چپکے سے کسی روز جتانے کے لیے آ
تقدیر بھی مجبور ہے، تدبیر بھی مجبور
اس کہنہ عقیدے کو مٹانے کے لیے آ
عارض پہ شفق، دامن مژگاں میں ستارے
یوں عشق کی توقیر بڑھانے کے لیے آ
طالبؔ کو یہ کیا علم، کرم ہے کہ ستم ہے
جانے کے لیے روٹھ، منانے کے لیے آ