My Blogs

طالب سے فراز تک

یوں بھی ترا احسان ہے آنے کے لیے آ

اے دوست کسی روز نہ جانے کے لیے آ

ہر چند نہیں شوق کو یارائے تماشا

خود کو نہ سہی مجھ کو دکھانے کے لیے آ

یہ عمر، یہ برسات، یہ بھیگی ہوئی راتیں

ان راتوں کو افسانہ بنانے کے لیے آ

جیسے تجھے آتے ہیں نہ آنے کے بہانے

ایسے ہی بہانے سے نہ جانے کے لیے آ

مانا کہ محبت کا چھپانا ہے محبت

چپکے سے کسی روز جتانے کے لیے آ

تقدیر بھی مجبور ہے، تدبیر بھی مجبور

اس کہنہ عقیدے کو مٹانے کے لیے آ

عارض پہ شفق، دامن مژگاں میں ستارے

یوں عشق کی توقیر بڑھانے کے لیے آ

طالبؔ کو یہ کیا علم، کرم ہے کہ ستم ہے

جانے کے لیے روٹھ، منانے کے لیے آ