سکندر اعظم کیا بننا چاہتا تھا؟
فقط بتيس سال کي عمر ميں دنيا فتح کرنے والے سکندر اعظم کو ان کے استاد ارسطو نے سکھايا کہ کہانياں انسان کي تاريخ کو کيسے بدلتي ہے ۔ ارسطو کا کہنا تھا کہ ادب اور کہانیاں صرف انسانوں کی تفریح کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کا سبق سکھانے اور قاعدے قانون بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ کہاني کا ذکر نکلا تو ارسطو کے شاگرد سکندر اعظم اور فلسفي ڈائيوجنز کي ايک کہاني ياد آگئي ۔ يوناني فلسفے ميں يہ مکالمہ خاصہ شہرت رکھتا ہے ۔ ايک روز سکندر اعظم اہل فارس کے خلاف یونانیوں کی فوج کا سالار بننے پر کورنتھ میں تمام لوگوں سے مبارکباد وصول کر رہا تھا ۔ ڈایو جینز کے سوا سب مبارک دینے آئے۔ سکندر کو حيراني ہوئي انتظار کرنے پر بھي جب ڈائيوجنز ملاقات کے لئے نہ آيا تو سکندر اعظم اسے ڈھونڈنے نکلا ۔ ڈائيوجنز پائپ ميں رہا کرتا تھا ، جب سکندر ساتھيوں کے ہجوم ميں ڈائيوجنز کي قيام گاہ پہنچا تو اپنا تعارف کرايا اور کہا ميں سکندر اعظم ہوں ، ڈائيوجنز نے جواب دیا اور میں ہوں ”دیو جانس کلبی”۔ سکندر نے پوچھا بتاؤ ميں تمھارے لئے کيا کرسکتا ہوں ، ڈائيوجنز بولا ۔ ہاں تم ميرے اور سورج کے درميان سے ہٹ سکتے ہو تاکہ روشني مجھ تک پہنچ سکے ۔ ڈائيوجنز کي بے نيازي اور عالم اطمينان نے سکندر اعظم کو عالم حيرت ميں مبتلا کرديا ۔ فلسفي کے اس جواب پر سکندر اعظم اٹھا اور ساتھيوں سے کہا اگر میں سکندر نہ ہوتا تو ڈایو جنیز بننے کی خواہش کرتا ۔ سکندر کے لئے ارسطو کا سبق ہو يا ڈائيوجنز سے گفتگو اس بات سے انکار ممکن نہيں کہ خيالات ميں رفعت کے بنا مادي نعمتوں سے حقيقي طور پر مستفيد نہيں ہوا جاسکتا ۔ اسي لئے افسانے کہانياں فلسفے ذہني بلندي کي نشونما کے لئے انتہائي ضروري ہے ۔