My Blogs

سائیکل اور ہیرے کی انگوٹھی

جدید دور میں بچے بھی جدید ہوچکے ہیں ، گیجٹس کی طرح مشینی ، تیز رفتاری کا مقابلہ کرنے کے لئے اب وہ بھی صرف اپنا اپنا ہی سوچتے ہیں ، جیسے ہی بچے کو تھوڑی بہت سمجھ آتی ہے اسے ” پہلے میں” کا پاٹ سمجھ آتا ہے ۔ جب جب ننھے منوں سے واسطہ پڑتا ہے روبو بچوں کا احساس شدت سے محسوس ہوتا ہے ۔ مووڈ سوئنگز دو سال کے بچوں میں بھی عام ہے ، مرضی سے مسکراتے ہیں مرضی سے بات کرتے ہیں ۔ پہلے تو آتے جاتے کوئی بچہ نظر آجائے تو بے جھجک پیار کرلیا کرتے تھے ۔ اب خوف آتا ہے کہ بچہ کہیں بدک نہ جائے ، دھاڑیں مار مار کر رونا شروع نہ کردے ، بھری محفل میں بے سبب خلل نہ پڑ جائے اور والدین بیچاری پریشان نہ ہوجائے ۔ آغاز میں مجھے لگا کہ یہ صرف میرے ساتھ ہورہا ہے شاید میں بچوں کا دل بہلانے کا فن بھول چکی ہوں ، لیکن جب میاں جی سمیت دیگر ساتھیوں نے بھی اپنے تجربات پیش کئے تو بڑا ریلیف محسوس ہوا لیکن دل بھی دکھا کہ ہمارے ننھے منوں کو کیا ہوگیا ہے ۔ والدین بھی ان عادات سے واقف ہیں ، پڑوسی نے بتایا کہ انکی بیٹی کے ہاتھ میں اگر کوئی کھلونا یا پھر کھانے کی چیز ہو تو وہ پیار محبت سے ملنے والوں کو رو رو کر بھگادیتی ہے تاکہ اسے کوئی چیز کسی سے شئیر نہ کرنی پڑے ۔ بچے واقعی بہت سمجھدار ہیں ، لیکن یہ سمجھداری وہ کہیں اور سے نہیں اپنے ہی ماحول سے سیکھتے ہیں ، جب وہ دیکھتے ہیں کہ ہر جانب صرف دوڑ لگی ہوئی ہے ، سوشل میڈیا پر میل ملاپ ہے ، دکھ درد کے ساتھی اور من پسند کردار اسمارٹ فون میں دستیاب ہیں ، تو پھر سامنے دکھائی دینے والوں سے بھلا کیسا رابطہ ۔ ننھے منوں کے رویوں کی اس چلچلاتی دھوپ میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اکثر و بیشتر میری امید بڑھاتا ، تین سال کے اس بچے کی لالچ اور مطلب پرستی میں معصومیت ہی امید کی کرن ہے ، ایک روز اسکا ابا مجھے دفتر لینے آیا ، میں پچھلی سیٹ پر بیٹھی تو وہ بھی وہاں آگیا اور کہا میں آپ کے ساتھ بیٹھوں گا میں نے حیرت سے پوچھا کہ خیریت ہے آج میرے ساتھ ؟ تو بڑے پیار سے کہا ہاں آپ بہت اچھی لگتی ہیں مجھے اور ساتھ ہی سوال کیا کہ آج پھر آپ مجھے کون سے پارک لے کر جائیں گی ۔ اس سوال کے ساتھ ہی مجھے محبت کا سبب سمجھ آگیا ۔ حال ہی میں ایک بار پھر اسکا ابا مجھے دفتر لینے آیا تو ساتھ وہ بھی موجود تھا ، اس بار میں اگلی نشست پر اسے گود میں لے کر بیٹھ گئی ، میری انگوٹھیاں دیکھ کر بولا کیوں پہنی ہیں یہ ، میں نے کہا آفس میں دعوت تھی تو فورا بولا ، پھر بہت ساری کیوں نہیں پہنی ، میں نے جواب دیا کہ میرے پاس صرف دو ہی ہیں ، اس پر بولا کہ تو خرید لیں ، میں نے کہا میرے پاس تمھارے ابا جیسا کوئی نہیں جو مجھے کہنے پر دلا دے تو جھٹ سے بولا میں ہوں نا ، میں دلا دیتا ہوں ، پھر خاموشی چھا گئی اور وہ چند سیکنڈ کے بعد اپنے ابا سے مخاطب ہوا اور حکم دیتے ہوئے کہا کہ ” پاپا گھر پہنچ کر میری سائیکل نکالیں مجھے ان کے لئے انگوٹھی لینے جانا ہے ” میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا اتبی بٖڑی گاڑی چھوڑ کر سائیکل پر انگوٹھی لینے کیوں جانا ہے تو بولا ” ارے گاڑی میں تھیلی لٹکانے کی کوئی جگہ نہیں ہے نا میری سائیکل پر ایک باسکٹ ہے میں وہاں رکھ دوں گا ” ۔
اس مکالمے میں اپنائیت ، مروت ، طرح داری ، حساسیت ، سمجھداری ، معصومیت اور شرارت سب کچھ سمایا ہوا تھا ۔ بچے سچ میں خوشیوں کا پلندہ ہوتے ہیں ، انکی دنیا میں رہ کر ہر مسئلہ معمولی اور ہر خوشی دائمی لگتی ہے ۔ بس اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ ہمارے ماحول میں رنگنے کے بجائے اپنے ماحول سے ہماری دنیا کو رنگ دیں ۔ ورنہ جس طرح دنیا کا قدرتی حسن آلودہ ہوتا جارہا ہے ، بچوں کا حسن بھی کہیں ہماری حرکات اور عادت کے سبب ماند نہ پڑ جائے ۔۔