My Blogs

دیمک — عید کی عیدی کا کڑوا انجام

عیدالفطر پر ملی واحد عیدی میں نے بڑے شوق سے سنبھال کر رکھی تھی۔ ارادہ یہی تھا کہ اسے کسی خاص موقع پر ہی خرچ کروں گی۔ سو یہ عیدی کراچی سے اسلام آباد تک میرے پرس میں محفوظ رہی اور بالآخر اس عیدالاضحیٰ پر سینما میں ایک پاکستانی فلم دیکھنے پر خرچ ہوگئی۔

چونکہ بجٹ محدود تھا اس لیے بمشکل دو ٹکٹس اور دو پاپ کارنز کا انتظام کیا گیا۔ اب انتخاب کا مرحلہ آیا تو دو آپشنز تھے: لوو گرو یا دیمک۔ میرا پاکستانی ہارر فلم دیکھنے کا پچھلا تجربہ کچھ خاص اچھا نہیں تھا، لیکن دل پر پتھر رکھ کر اس بار بھی ایک چانس لینے کی ٹھانی — اور اس فیصلے پر اپنے ساتھ جانے والے کو خفا بھی کرلیا۔

خیر، تمام مراحل سے گزرتے ہوئے جب ہم سینما پہنچے تو بطور کراچی والے ہمیں شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ کیپری، اٹریئم، اوشن مال، نیوپلکس جیسے سینما گھروں کا عادی ہونے کے بعد سینٹورس کا یہ کبوتر خانہ نما سینما بہت چھوٹا اور بے آرام لگا۔ نشستوں پر بیٹھنا محال تھا، لوگ ایک دوسرے کی گود پر چڑھ کر راستہ بنا رہے تھے اور ماحول کچھ اس قدر بدنظم تھا کہ لگتا تھا سینما نہیں، کوئی لنگرخانہ ہے!

خیر، جیسے تیسے فلم شروع ہوئی۔ چند ہی سینز دیکھ کر اندازہ ہوگیا کہ آگے نہ کوئی متاثرکن گرافکس ملیں گے، نہ ہی سینماٹک ایفیکٹس کا کوئی جادو۔ کردار چونکہ سب ڈرامے سے تعلق رکھتے تھے تو اداکاری میں ڈرامائی جھلکیاں فطری تھیں، لیکن اگر فلم کو سینما میں ریلیز کرنے کی ٹھان ہی لی تھی تو کچھ فلمی مصالحہ ڈالنا تو بنتا تھا!

رافع راشدی کی ہدایت کاری میں بننے والی اس فلم میں سونیا حسین، فیصل قریشی اور ثمینہ پیرزادہ نے مرکزی کردار ادا کیے ہیں۔ کہانی، جسے عائشہ مظفر نے تحریر کیا ہے، سچے واقعات پر مبنی بتائی جاتی ہے — اور حقیقتاً کہانی میں جان بھی تھی — مگر ہدایت کاری اس کو پوری طرح نکھار نہ سکی۔ اداکاروں نے اپنی جانب سے بہترین اداکاری کی کوشش کی، خاص طور پر دو چائلڈ کیریکٹرز نے بھی اچھی پرفارمنس دی، مگر کہانی کو جوڑ کر رکھنے اور خوف کی فضا پیدا کرنے میں کمزوریاں نمایاں رہیں۔

پوری فلم بنیادی طور پر ایک ہی گھر کے گنتی کے تین کمروں میں شوٹ کی گئی، باہر کے چند شاٹس اور ایک زیرِ تعمیر عمارت کے دو سینز تھے۔ ایسے محدود سیٹ اپ میں فلم کو دلچسپ بنانے کے لیے کیمرہ اینگلز اور شاٹس ہی بنیادی ہتھیار ہوتے ہیں، جو یہاں بری طرح مِسنگ تھے۔

ویژول ایفیکٹس کا حال تو یہ تھا کہ ایک کمزور دل فلم بین ہونے کے باوجود میں ڈرنے کے بجائے ان پر ترس کھاتی رہی۔ ہارر فلموں میں عموماً کہانی بکھری ہوئی ہوتی ہے، مگر یہاں کہانی میں تسلسل تو تھا لیکن پروڈکشن نے اس کا جادو زائل کردیا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ ایک بار پھر ہارر فلم کے انتخاب پر ساتھ والے ساتھی کی طنزیہ نظریں اور دو گھنٹے کی اذیت برداشت کرنے کے بعد باقی ماندہ عیدی بھی زہر مار کرنی پڑی — اور سینما کی حالت زار الگ!

یہ الگ بات کہ دیمک نے عید کی چھٹیوں میں اچھا بزنس کرلیا ہے، لیکن اگر آپ کا بجٹ محدود ہے اور فلم دیکھنے کا ارادہ بنا رہے ہیں تو میری مانیں — انتخاب سوچ سمجھ کر کیجیے گا