دنیا کی پہلی عورت پنڈورا
مرزا نے پوچھا،، یوسفی یہ بتاؤ عورت کی کشش اور زمین کی کشش میں کیا فرق ہے۔ مشتاق احمد يوسفي نے عرض کیا کوئی فرق نہیں دونوں خاک میں ملا دیتی ہیں۔ عورتوں کي تعريف کرتے مشتاق احمد يوسفي کے مزاحيہ فقرے اور بھي بہت ہيں ليکن علامہ ناصر فاروق نے عورت کي خوبيوں کو جس انداز ميں بيان کيا اس سے لطف اٹھائے بنا نہيں رہا جاسکتا ۔ علامہ ناصر فاروق کے نام سے کئي افراد واقف نہيں، يہ ہمارے بہترين کوليگ ہيں اور پانچ کتابوں کے مصنف مترجم بھي۔ انکي جملہ بازي کے بنا دفتر کا ماحول وحشت زدہ ہوسکتا ہے۔ چند روز قبل انہوں نے ايک قصہ شئير کيا کہا وہ اپنے بچوں کو خوش کرنے کے لئے پرندے پالتے ہيں ، زيادہ تر طوطا طوطي کو ترجيح ديتے ہيں ليکن کچھ دنوں ميں ہي پہلے طوطا مر جاتا ہے اور پھر طوطي، اب کئي ماہ سے طوطوں کي جوڑي ايک خوشگوار زندگي گذار رہي ہے انڈوں کے لئے رکھا گيا پيالا خالي ديکھا تو غور کيا کہ جسے طوطا طوطي سمجھ رہے تھے وہ دو طوطے ہيں اور مزے سے جئے جارہے ہيں ۔ اس بات کو کہیں میں مذاق نہ سمجھ لوں ناصر بھائی فورا مجھے يوناني ديومالائي دنيا ميں لے گئے جہاں مرد ہنسي خوشي زندگي بسر کررہے تھے کہ اچانک کوئي خداؤں کے بادشاہ کو خفا کرديتا ہے وہ بدلہ لينے کے لئے خاتون کو بنانے کا حکم ديتا ہے ، نتيجے ميں پنڈورا نامي خاتون وجود ميں آتي ہے جسے دنيا کي پہلي خاتون کہا جاتا ہے ، تمام ديوتا پنڈورا کو بدي نيکي کے تحفے ديتے ہيں جسے وہ باکس ميں رکھتي ہے ۔ باکس کي چابي پنڈورا کے شوہر کے پاس ہے ليکن وہ چابي چرا کر تجسس ميں باکس کھول ديتي ہے اور پھر ناگہاني آفتيں مردوں کي پرسکون دنيا کو تہس نہس کرديتي ہے ۔ پنڈورا اسکا باکس اور اسکي بے چين کيفيت کي جو کہاني ناصر بھائي نے بيان کي مجھے يقين ہے اسے سن کر يوناني ديوتا بھي خوب محظوظ ہوئے ہوں گے اس سے پہلے انہوں نے بھي اس نظريے سے سوچا اور کہاني کو بنا نہيں ہوگا ۔ تمام کہاني کا لب لباب يہي ہے کہ طوطي ہو يا پھر پنڈورا عورت کوئي جنس نہيں ايک کيفيت کا نام ہے جسے سمجھنا قريب قريب نا ممکن ہي ہے ۔ چند سال قبل اس پر تحقيق بھي ہوچکي جس ميں انکشاف ہوا ہے کہ جینز کے اعتبار سے مردوں کی شخصیت سادہ جبکہ عورتیں پیچیدہ اور متنوع ہوتی ہیں ۔۔ يہ تو کاتب تقدیر کا لکھا ہے اسے اب کون بدل سکتا ہے