آؤ سنیں
انتون چیخوف کی شارٹ اسٹوریز ان کی پہچان ہیں۔
ان کی کہانیاں انیس ویں صدی کے روس کے حالات اور واقعات کی منظر کشی کرنے کے ساتھ انسانی جذبات اور رویوں کی عکاس ہیں۔ انتون چیخوف کی یوں تو کئی کہانیاں ایسی ہیں جنھوں نے پڑھنے والوں کو گویا اپنے سحر میں جکڑ لیا، لیکن موجودہ حالات میں misery نامی کہانی بار بار ذہن میں ابھررہی ہے۔
یہ ایک ایسے شخص کی داستان ہے جو اپنے اکلوتے بیٹے کی موت دیکھتا ہے۔ غربت اسے بیٹے کا علاج کرانے کی مہلت نہیں دیتی، کسمپرسی کفن دفن کی اذیت بڑھا دیتی ہے، اکیلا پن اس کا درد تاریک سرنگ کی طرح طویل کردیتا ہے۔
کوچوان سرد راتوں کے برف پوش راستوں پر نکلتا ہے، بظاہر اسے سواری کی تلاش ہوتی ہے، لیکن درحقیقت وہ غم خوار کا طالب ہے۔ سواری کے پوچھے بغیر ہی وہ اسے حال سننانے لگتا ہے، کہتا ہے ایک ہی تو اولاد تھی وہ بھی مرگئی، علاج نہ کرا سکا، اس کی ماں بھی غم برداشت نہ کر سکی وہ بھی نہیں رہی، کوئی نہیں جو سننے، غم سے دل پھٹ رہا ہے۔
کوچوان کے منہ سے نکلنے والے جملے چند الفاظ نہ تھے بلکہ درد کا لاوا تھا جو ابل رہا تھا جسے وہ نکال کر خود کو بھسم ہونے سے بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کوشش نے اس کا کام مشکل کردیا، کسی سواری نے ڈانٹ کر تو کسی نے مار کر کوچوان کو چپ کرایا، کوئی تذلیل کرکے اور کوئی سنے بغیر ہی لوٹ گیا۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا، کوچوان کا بھی یہی حال تھا، درد کے بھنور میں پھنسا کوچوان کہانی کے آخر میں گھوڑے کو دل کا حال سنا کر اپنی جان بچاتا ہے۔
اس کہانی میں ایک جانب لوگوں کی بے حسی تو دوسری طرف ایسے فطری تقاضے کا ذکر ہے جس سے بیش تر افراد ناواقف ہیں۔
والد صاحب جب بیمار ہوتے تھے تو طبیعت زیادہ بوجھل ہوجاتی تھی، وہ ماضی کی کئی باتیں دہراتے جو بے ربط ہوتیں، اس وقت خیال آتا تھا کہ اس قدر بے تکی باتوں کی وجہ کیا ہے، وہ بولتے ہوئے ایک جملہ کہتے کہ پریشان مت ہونا میں صرف وینٹ آوٹ کررہا ہوں۔ اس وقت شاید اس جملے کی اہمیت اور شدت کا اندازہ نہیں تھا، زندگی نے کئی موڑ پر اس کی اہمیت اور وقعت سمجھائی لیکن جب یہ کہانی پڑھی تو حقیقت اور بھی واضح ہوگئی۔
دل کے غبار کو زبان کے ذریعے نکلنے کا راستہ تو مل جاتا ہے، لیکن جب تک اس کیفیت کو صحیح معنوں میں محسوس کرنے والا نہیں ملتا، اس وقت تک غبار بھاپ نہیں بنتا۔ آج کل کی مشینی زندگی کا اگر ماضی سے موازنہ کیا جائے تو ایک جملہ کافی ہوگا کہ سنتے تھے انسانے مرتے ہیں تو ارواح بھٹکتی ہیں اور اب روح مر جاتی ہے، انسان بھٹک رہے ہیں۔
جب غبار نکلے گا نہیں تو روح تو مَر ہی جائے گی۔ سننے سنانے کا کلچر ہی اس بھٹکنے اور بھٹکانے سے نجات دلا سکتا ہے۔ آؤ بات کریں وہ نعرہ ہے جو خودکشی روکنے کے لیے مہم کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ آئو سنیں کے بغیر یہ مہم نامکمل لگتی ہے۔